Skip to main content

خود سری کا بھرم نہ کھل جاے
آدمی کا بھرم نہ کھل جاے
تیرگی کا طلسم ٹوٹ گیا
روشنی کا بھرم نہ کھل جاے
موت کا راز فاش تو کر دوں
زندگی کا بھرم نہ کھل جاے
حسن مختار اور دل مجبور
عاشقی کا بھرم نہ کھل جاے
کون دیوانگی کو دے الزام
آگہی کا بھرم نہ کھل جاے
کیجے رہبروں کا کیا شکوہ
گمراہی کا بھرم نہ کھل جاے
امتحان وفا درست، مگر
جور ہی کا بھرم نہ کھل جاے
اے مغنی، غزل ضیاء کی نہ چھیڈ
شاعری کا بھرم نہ کھل جاے

Rate this poem
No votes yet
Reviews
No reviews yet.