Skip to main content

اپنے آنگن میں جو لگایا تھا
ایک پودا گلاب کا میں نے
بیس اور نو برس میں وہ بڑھ کر
میرے قد کے قریب آ پہنچا
روشنی گھر کے گوشے گوشے میں
اس کے حسن و جمال کی پھیلی
لے اڑی نکہت اس کی باد سحر
اور معطر ہوا تمام چمن
رکھ دیا زندگی کا نام چمن -

دور سے دیکھ کر اسے خنداں
کھل اٹھی ایک نا شگفتہ کلی -
دو دلوں کی خموش دھڑکن نے
راز مستی کہا اشاروں میں
چھڑ گیا ساز لے کر انگڑائی
کھول دی اپنی آنکھ نغموں نے
سبز پتّوں نے تالیاں پیٹیں
شاخیں محد ہوا میں جھول گئیں
غم و آلام دہر بھول گئیں -

شادمانی، نشاط، کیف و طرب
بجتی شہنایوں کا شور و غل
نرتکی کائنات کی رقصاں
زندگی جیسے اک حسین غزل
بن سنور کر بنی ہوئی دلہن
اک نے موڈ پر کھڈی ہے حیات
دے رہی ہے نئی سحر کا پیام
روشنی ہر طرف ہویدا ہے
سر انسانیت پہ سہرا ہے

Rate this poem
No votes yet
Reviews
No reviews yet.